Greenwich University hosts debate on key journalism issues

The Front Page | November 27 English & Urdu reports

Members of The Front Page and the hosts of the event pose for a photograph

WHY can’t journalists report on positive news? Why can’t journalists be honest about ground realities? What are journalists doing to curb fake news?

These were some of the questions that were put by students to a panel of journalists during a workshop held at the Greenwich University on Tuesday. The panel that represented The Front Page at the event consisted of senior journalists Mazhar Abbas, Muna Khan, Ashraf Khan and Dr Irfan Aziz. Umber Khairi, Prof Tauseef Ahmed Khan and Sohail Sangi were also present in the audience. 

The panellists spoke about young people’s news consumption habits, objectivity in the media, business models and the importance of adhering to journalism values. Each panellist shared their experiences from the field or the classroom in a bid to understand the distrust between the youth and news organisations.

Students who took to the podium spoke about news organisations not giving the whole picture and about an absence of positive news, something that may give audiences hope or offer solutions. “News organisations just want to keep audiences in an agitated, depressed state with their analyses,” said one female student.

A young man who came to the podium said the media was not free anymore, and cited the periods of 1986, 1992 and then 2007 as times he felt the media enjoyed relative press freedoms. He said the media was not showing the truth about the protests in Islamabad.

The panellists responded to the queries, explaining how the media functions, why it is important to stick to the rules of 5Ws and 1H in reporting and why audiences must reject those Vloggers who spread disinformation. Journalism is about credibility, said Mr Abbas.

The university’s management presented the panellists with appreciation placards.





گرینج یونیورسٹی کراچی کے طالب علموں کے ساتھ ایک نشست کا احوال

سامعین میں بیٹھے صحافی

یونیورسٹی کے طلبہ اور نوجوان صحافت کے اداروں سےفراہم کی جانے والی خبروں سے مطمئن نہیں ہیں۔ ان اداروں سے فراہم کردہ معلومات اور خبریں نوجوانوں کی معلومات اور خبروں کی ضرورت کو پورا کرنے کے لیے کافی نہیں ہیں۔ صحافت کے ادارے حکومتی اور غیر حکومتی دباؤ کی وجہ سے مکمل اور درست معلومات فراہم کرنے کی صلاحیت سے محروم نظر آتے ہیں، حالانکہ ملک کے موجودہ سیاسی اور معاشی حالات کے باعث خبروں اور معلومات کی طلب بہت زیادہ ہے۔شہری درست معلومات اور خبروں کے حصول کے لیے مسلسل کوشش کرتے نظر آتے ہیں۔

موبائل فون، انٹرنیٹ، اور سوشل میڈیا کے ذریعے ہر طرح کی معیاری اور غیر معیاری معلومات عوام تک پہنچ رہی ہیں۔ عوام میں میڈیا لٹریسی کی شدید کمی کی وجہ سے وہ ان معلومات کی صداقت اور معیار کا اندازہ لگائے بغیر ان کا استعمال کرتے ہیں، جو سیاسی اور معاشرتی بے یقینی میں اضافے کا سبب بن رہا ہے۔ دی فرنٹ پیج کے مظہر عباس، مونا خان، اشرف خان، ڈاکٹر عرفان عزیز، ڈاکٹر توصیف احمد خان، امبر خیری، اور سہیل سانگی نے گرینج یونیورسٹی کراچی کے طلبہ کے لیے 26 نومبر بروز منگل منعقد کی جانے والی خصوصی ورک شاپ میں شرکت کی۔ جہاں یونیورسٹی کے طلبہ ، اساتذہ اور افسران بھی موجود تھے۔ یہ ورکشاپ دوپہر 2 بجے سے شام 5 بجے تک جاری رہی۔

اس دوران مقررین نے مختصر خطاب کیا، جبکہ طلبہ نے سوالات کے ذریعے اپنی آراء کا اظہار کیا اور چند طلبہ نے اسٹیج پر آکر بھی اپنے خیالات کا اظہار کیا۔

طلبہ کی رائے

ایک طالب علم نے کہا کہ صحافت کے اداروں سے ملنے والی خبریں مکمل اور درست نہیں ہوتیں اور یہ خبریں حالات کی مکمل آگاہی دینے میں ناکام رہتی ہیں، جبکہ دیگر ذرائع سے حاصل شدہ اطلاعات بعد میں زیادہ درست ثابت ہوتی ہیں۔

ایک اور طالب علم نے سوال اٹھایا کہ صحافت کے ادارے ہمیشہ منفی خبروں کو زیادہ اہمیت دیتے ہیں اور مثبت خبروں کو نظرانداز کر دیتے ہیں۔ مظہر عباس نے وضاحت کی کہ خبر عموماً وہاں بنتی ہے جہاں خرابی یا کوتاہی ہو؛ اچھے کاموں کی رپورٹنگ عموماً کم ہوتی ہے۔خبر تو اسی وقت بنتی ہے جب کوئی انہونی بات ہوتی ہے یا کوئی ادارہ یا افسر اپنے فرائض سے غفلت کا مظاہرہ کرتا ہے۔

مقامی خبریں اور صحافت

ایک اور طالب علم نے شکایت کی کہ مقامی مسائل اور عوام کو درپیش چیلنجز پر تفصیلی رپورٹنگ نہیں کی جاتی۔ مظہر عباس نے کہا کہ مقامی خبریں موجود ہوتی ہیں، لیکن سیاسی خبروں کا تناسب زیادہ ہے۔ انہوں نے زور دیا کہ صحافیوں کو اپنے تجزیوں میں حقائق پر توجہ دینی چاہیے اور ریٹنگ کی دوڑ میں حقائق کو قربان نہیں کرنا چاہیے۔

صحافت میں تصدیق کی اہمیت

مظہر عباس نے کہا کہ صحافتی ادارے اپنی خبریں مختلف مراحل سے گزار کر عوام تک پہنچاتے ہیں، جس سے خبروں میں جھوٹ کے امکانات کم ہو جاتے ہیں۔ انہوں نے بی بی سی کی مثال دی کہ اندرا گاندھی کے قتل جیسی بڑی خبر کو بھی تصدیق کے بغیر نشر نہیں کیا گیا تھا۔

اسٹوڈنٹ یونین اور سیاسی شعور

طلبہ نے اسٹوڈنٹ یونین پر پابندی کے نقصانات پر بات کی۔ مظہر عباس نے کہا کہ اس پابندی نے طلبہ میں سیاسی شعور اور اجتماعی زندگی کے مسائل کے حل کی سمجھ بوجھ ختم کر دی ہے، جو معاشرتی مثبت رویوں میں کمی کی ایک بڑی وجہ ہے۔اجتماعی رویوں میں تشدد اور شدت پسندی کا بڑھتا ہوا رجحان بھی اسی وجہ سے ہے۔

صحافت کے بزنس ماڈل کی ضرورت

مونا خان نے کہا کہ خبروں کے مفت ہونے کا نقصان صحافت کو برداشت کرنا پڑ رہا ہے۔ انہوں نے نشاندہی کی کہ ایک مناسب بزنس ماڈل کے بغیر صحافت کا معیار بہتر نہیں ہو سکتا۔ انہوں نے کہا کہ "سٹیزن جرنلزم" کا تصور اس پیشے کی اہمیت کو کم کرتا ہے۔ جس طرح سٹیز ن ڈاکٹر اورسٹیزن وکیل کا تصور ناقابل فہم ہے اسی طرح سٹیزن جرنلاز م بھی ایک غیر منطقی اصطلاح ہے۔ اس سے یہ تاثر ملتا ہے کہ صحافت تو کوئی بھی کسی بھی وقت کر سکتا ہے۔ حالانہ صحافت ایک انتہائی اہم پیشہ ہے جس کے لیے پیشہ ورانہ تربیت ضروری ہے۔

سامعین کی ذمہ داری

مونا خان نے کہا کہ ناظرین اور سامعین کو میڈیا مواد پر اپنی رائے دینی چاہیے۔صرف فیڈبیک کے ذریعے پروگرام کے معیار کو بہتر بنایا جا سکتا ہے۔صارفین کی جانب سے اپنی رائے کا اظہار نہ کرنے سے یہ تاثر ملتا ہے کہ لوگ اس پروگرام کو پسند کر رہے ہیں۔

نوجوانوں کے لیے رہنما اصول

ڈاکٹر توصیف احمد خان نے کہا کہ میڈیا میں کیریئر بنانے کے خواہشمند نوجوانوں کو حقائق جاننے کے لیے شعوری کوشش کرنی چاہیے اور اپنی رائے دستیاب حقائق کی روشنی میں قائم کرنی چاہیے۔

میڈیا اور معاشرتی حالات

آخر میں،ڈاکٹر توصیف احمد خان نے کہا کہ میڈیا کا معیار بہتر کرنے کے لیے ملک کے سیاسی اور سماجی حالات کو بہتر بنانا ضروری ہے۔ میڈیا حقیقت کا عکس ہے، اور اگر ہم بہتر میڈیا دیکھنا چاہتے ہیں تو ہمیں بہتر معاشرتی حالات پیدا کرنا ہوں گے۔

Previous
Previous

News media facing existential threat?

Next
Next

Front Page kicks off ambitious advocacy programme